Saturday, 18 July 2015

شندور ٹاپ،گلگت - پاکستان

0 comments
دنیا کا بلند ترین پولوگراؤنڈ
-----------------
 شندور ٹاپ گلگت ،پاکستان کا حصہ ہے - اپنی بلندی کی اہمیت کے پیش نظر اسے "دنیا کی چھت"بھی کہا جاتا ہے ۔یہ سطح سمندر سے 12،200 فٹ بلند ہے - شندور پولو فیسٹول ہر سال سات سے نو جولائی تک منعقد ہوتا ہے اور چترال اور گلگت کی ٹیموں کے درمیان "پولو" کا  کانٹے دارمیچ ہوتا ہے -اس میچ کی تیاری کیلئے گلگت اور چترال دونوں علاقوں میں مقامی سطح پر میچ منعقد کرائے جاتے ہیں تاکہ اصل مقابلے کیلئے بہترین کھلاڑیوں کا انتخاب کیا جا سکے اسی طرح  پولو کے  گھوڑوں کو بھی خاص طور پر تیار کیا جاتا ہےکیونکہ عام گھوڑا اتنی بلندی پر پولو نہیں کھیل سکتا۔ - اس میچ کو دیکھنے کیلئے نہ صرف پاکستان بلکہ ساری دنیا سے سیاحوں کی کثیر تعداد پاکستان آتی ہے -

خوشی اور غم کی وجوہات

0 comments
کچھ لوگ غم کی تکرار کرتے ہیں یہ غمگین لہریں کائنات میں پھیلتی ہیں اور ہر اس شے کو متحرک کرتی ہیں جو پریشانی کا سبب بنتی ہے- پریشانی والے وسائل متحرک ہو کر اس فرد کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور نتیجے میں پریشانیاں کڑی در کڑی اپنا مظاہرہ کرتی ہیں یہی حال خوشی کا ہے- اس قانون کے تحت الله تعالٰے فرماتے ہیں جو لوگ میرا شکر ادا کرتے ہیں میں انکی نعمتیں بڑھاتا ہوں اور جو نا شکری کرتے ہیں انکے لئے میرا عذاب سخت ہے-

بزرگوں پر شرمسار نسلیں ؟

0 comments
بزرگوں کے حوالے سے ایک غیر اخلاقی روئیے کی نشاندہی!!!
 بچپن میں لنگوٹ میں سر محفل پیشاب پاخانہ کردینی والی اولاد کی جوانی کے ایک تلخ مگر سچے روئیے کی نشاندہی - جو یہ رویہ اپنائے گا اخلاقیات کا "شعور اجتماعی" یہ اعلان کررہا ہے کہ  دنیا اور آخرت کی ذلت اس کا مقدر ہے -غیروں سے مرعوب ہوکر اپنوں کو غیر بنانا یہ عروج نہیں زوال کا پست ترین درجہ ہے -
(ان نوجوانوں سے معذرت کے ساتھ جو اعلی اخلاقی ظرف اور ہمت رکھتے ہیں اپنی پہچان کو اپنا کہنے کی -)

ہٹلرکی مونچھیں ۔۔۔۔

0 comments
ہٹلر کی مونچھیں
ہٹلر جیسی مونچھیں جرمنی میں پہلے سے رواج پا چکی تھیں۔ لیکن ہٹلر نے یہ مونچھیں ایک خاص وجہ سے تراشیں۔ وہ وجہ یہ تھی کہ ہٹلر جنگ عظیم اول میں ایک خندق میں چھپا بیٹھا تھا کہ اتحادیوں نے گیس شیل پھینک دیا۔ گیس شیل کے زہریلے دھویں سے بچنے کیلئے ہٹلر نے جب دستیاب ماسک پہننے کی کوشش کی تو وہ اس کی بڑی بڑی مونچھوں سے الجھنے لگا جس پر ہٹلر ماسک نہ پہن سکا اور مجبوراً کئی لمحوں تک اسے سانس روکنا پڑا۔ گیس کا اثر ختم ہوتے ہی اس نے لمبا سانس لیا اور جتنی مونچھیں ماسک پہننے میں رکاوٹ بن رہی تھیں وہ اندازے سے کاٹ دیں کیوں کہ گیس شیل کسی بھی وقت دوبارہ پھٹ سکتا تھا -

Monday, 15 June 2015

چهان مارے ہیں فلسفے سارے

0 comments
چهان مارے ہیں فلسفے سارے !!! 
 دال روٹی ہی سب پہ بھاری ہے

Sunday, 14 June 2015

شریعت ، طریقت ، حقیقت ، معرفت

2 comments
شریعت ، طریقت ، حقیقت ، معرفت۔۔۔
 رسول اللہﷺ کے زمانہ میں اور اس کے بعد خیر قرون میں شریعت ، طریقت ، حقیقت ، معرفت وغیرہ کوئی خاص اصطلاح نہ تھیں۔ صرف شریعت کا لفظ دین کے معنی میں استعمال ہوتا تھا باقی الفاظ قریباً اپنے لغوی معنی پر تھے۔ اس کے بعد جیسے فقہ والوں نے احکام کے درجات بتلانے کی غرض سے فرض واجب وغیرہ اصطلاحات مقرر کی ہیں۔ اسی طرح صوفیائے کرام نے تہذیب اخلاق یعنی علم تصوف میں سلوک عبد کے درجات کو ظاہر کرنے کی غرض سے یہ الفاظ مقرر کیے۔ ان چاروں مراتب کی مثال درخت کی سی ہے۔
 مثلاً درخت کے لئے جڑیں اور تنا ہے ان کے بغیر درخت کا وجود ہی نہیں۔
 پھر ٹہنے اورشاخیں ہیں یہ بھی درخت کےلئے لازمی ہیں۔
 پھر پھل ہے پھر اس کی لذت ہے۔
 ٹھیک اسی طرح تصوف ہے۔ شریعت کے بغیر تو تصوف کوئی چیز ہی نہیں۔ نہ وہاں طریقت ہے نہ حقیقت نہ معرفت کیونکہ شریعت بمنزلہ جڑ اور تنے کے ہے۔ اس کے بعد طریقت کا مرتبہ ہے جو بمنزلہ ٹہنوں اورشاخوں کے ہے۔ اس کے بغیر بھی تصوف کالعدم ہے۔ پھر حقیقت پھل کے قائم مقام ہے اورمعرفت اس کی لذت کے قائم مقام ہے۔ جیسے درخت پھل اور اس کی لذت کے بغیر کامل نہیں اس طرح بندہ بھی خدا کے نزدیک کمال کو نہیں پہنچتا جب تک اس کے اندر حقیقت اور معرفت پیدا نہ ہو جائے۔ خلاصہ یہ کہ شریعت ، طریقت ، حقیقت ، معرفت خواہ الگ الگ شاخیں ہوں یا ایک ہوں اور الگ ہونے کی حالت میں چارہوں یا کم ہوں۔ کسی صورت میں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہو سکتے۔ جو ایک دوسرے سے جدا ہونے کے قائل ہیں وہ ان کی حقیقت سے ناواقف ہیں۔ اللہ ان کو سمجھ دے اور راہ راست کی توفیق بخشے۔ آمین
بحوالہ:
کتاب الایمان، سید عبد اللہ محدث روپڑیؒ  

اماں شاید ملے ۔۔۔۔

0 comments


نگاہ الجھی ہوئی ہے رنگ و بو میں
 خرد کھوئی ہوئی ہے چار سو میں
 نہ چھوڑدل فغان صبح گاہی
      اماں شاید مل اللہ ھو میں ۔۔

آج کی بات

0 comments

ایسی چھاؤں میں نہ بیٹھا کرو جو دھوپ سے نفرت سکھاتی ہے-
(احمد جاوید صاحب)

Saturday, 13 June 2015

دیوان حکمت

0 comments
روحانیت ،پھونکوں کا علم ۔۔۔"ایک شبہ "   کا جواب
عظیم صوفی سلسلے "سلسلہ عظیمیہ"کے امام حضور قلندر بابا اولیاءؒ فرماتے ہیں کہ:
 ’’کوئی علم قربت کے بغیر حاصل نہیں ہوتا۔‘‘
 روحانیت کیلئے قربت ضروری ہے۔ جس طرح بچے کیلئے ماں باپ کا قرب ضروری ہے کہ وہ اپنی مادری زبان اور خاندانی روایات سیکھے۔ اسکول میں استاد کا قرب ضروری ہے۔ اسی طرح روحانیت میں مرشد کی قربت ضروری ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ روحانیت پھونکوں کا علم ہے، اگر پھونکوں سے روحانیت آ جاتی تو پھونکوں سے آدمی میٹرک بھی کر لیتا۔ دنیاوی علوم اور روحانی علوم سیکھنے کیلئے استاد کی قربت ضروری ہے۔ استاد کے بغیر کوئی بھی علم نہیں سیکھا جا سکتا۔ گونگے، بہرے ماں باپ کے بچے ان کے ساتھ رہ کر بولنا نہیں سیکھ سکتے۔ ایک انسان کے بچے کو بھیڑیا اٹھا کر لے گیا اور بھیڑیے نے اس کی پرورش کی۔ بھیڑیے کی صحبت اور پرورش کا یہ اثر ہوا کہ بچہ چاروں ہاتھوں پیروں سے چلنے لگا اور وہ بہت تیز بھاگتا تھا۔ اگر ہم صفاتی اعتبار سے جانوروں کی زندگی گزاریں تو انسان کے اندر بھی جانوروں کی صفات آ جاتی ہیں۔ جب بچہ بداخلاق لوگوں کے ساتھ رہتا ہے تو وہ بھی بداخلاق ہو جاتا ہے۔ ماں باپ گالیاں بکتے ہیں تو بچہ بھی گالیاں بکنے لگتا ہے۔ ماں باپ صاف ستھرے رہتے ہیں، ان کا اخلاق اچھا ہوتا ہے اور وہ محب وطن ہوتے ہیں تو بچہ کے اندر بھی یہی خصوصیات ہوتی ہیں۔ بچہ کے اندر وہی صفات ہوتی ہیں جو والدین اور ماحول میں ہیں۔ انسان دو پیروں سے چلتا ہے اس لئے کہ اس کی ماں اور انسانی برادری دو پیروں سے چلتی ہے۔ بکری کا بچہ چار پیروں سے چلتا ہے اس لئے کہ اس کی ماں بکری بھی چار ہاتھ پیروں سے چلتی ہے۔ چڑیا کا بچہ اڑتا ہے اس لئے کہ اس کے ماں باپ اڑتے ہیں۔ یہی حال رینگنے والے کیڑوں کا ہے وہ بھی اسی طرح رینگتے ہیں جس طرح کیڑے کے ماں باپ رینگتے ہیں۔ چڑیا ایک پرندہ ہے، اس پرندہ کی آواز چوں چوں ہے۔ چڑیا کے بچے بھی یہی آواز بولتے ہیں جو چڑیاکے ماں باپ بولتے ہیں۔ کوئل کی آواز نہایت خوبصورت آواز ہے۔ کوئل کے بچے بھی خوبصورت آواز میں کوکو کی صدا لگاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔۔۔
’’اچھی آواز سے بات کرو۔ اور آواز تو گدھے کی بھی ہے۔‘‘(سورۃ لقمان۔ آیت۱۹)
جس طرح دنیاوی زندگی میں ماحول کا اثر ہوتا ہے اور آدمی اس ماحول کی نقل کرتا ہے جس ماحول میں وہ رہتا ہے۔ اسی طرح روحانی دنیا کا بھی ایک ماحول ہے۔ اس ماحول میں رہنے والے لوگوں کا اخلاق اچھا ہوتا ہے۔ ان کے اندر شک اور وسوسے کی جگہ یقین کام کرتا ہے۔ جس طرح آدمی کے اوپر ماحول اثر انداز ہوتا ہے اسی طرح اخلاق اور شرافت کا اثر ہوتا ہے۔ روحانی دنیا میں بھی ماحول کا اثر ہوتا ہے اور اس کی ابتداء یقین سے ہوتی ہے۔ جب کوئی بندہ روحانی دنیا سے واقف ہو جاتا ہے اور روحانی دنیا کی طرزیں اس کے اندر راسخ ہو جاتی ہیں تو وہ کہتا ہے کہ
’’میرا اس بات پر یقین ہے کہ دنیا میں آخرت میں، دنیا میں آنے سے پہلے اور دنیا سے جانے کے بعد کی دنیا میں، یعنی جی اٹھنے کے بعد عالم میں، صبح، دوپہر، شام اور رات میں جو کچھ ہوتا ہے، ہو چکا ہے اور جو کچھ ہو رہا ہے وہ سب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔‘‘
 (سورۃ آل عمران۔ آیت۷)
بحوالہ:
آگہی از خواجہ شمس الدین عظیمی

آج کی بات

0 comments

ہماری توبہ،توبہ کی محتاج ہے اور ہمارا استغفار،استغفار کا محتاج ہے - ایسی توبہ سے توبہ کرنی چاہئے-
(حضرت رابعہ بصریؒ)

دیوان حکمت

0 comments
توقعات کا فارمولہ
مخلوق سے نہیں ، اللہ سے تمام توقعات قائم کریں -
(خواجہ شمس الدین عظیمی )

Thursday, 11 June 2015

اقوال زریں

0 comments
صبح خیزی میں مرغان سحر کا سبقت لے جانا تیرے لئے باعث ندامت ہے-
( حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ)

دیوان حکمت

0 comments
حضرت بہلول کا جواب اور ہارون رشید کا رونا۔۔۔
شاہ بہلولؒ کے مجذوبانہ حال کی وجہ سے بادشاہ ہارون رشید ان سے دلی عقیدت مندی کے باوجود دل لگی کرلیتا تھا مگر بادشاہ کے دل میں شاہ بہلولؒ کا بڑا احترام تھا۔ انہوں نےاپنے درباریوں کو حکم جاری کیا تھا کہ شاہ بہلولؒ کسی بھی وقت آئیں ان کوروکا نہ جائے بلکہ میرے پاس بلالیا جائے‘ ایک روز ہارون رشید دربار میں بیٹھا تھا کہ شاہ بہلول آگئے۔بادشاہ کو حسب معمول مزاح کی سوجھی۔ اس کے ہاتھ میں ایک خوبصورت چھڑی تھی اس نے وہ شاہ بہلولؒ کو دی اور کہا کہ اگر آپ کو اپنے سے زیادہ کوئی بے وقوف آدمی مل جائے تو یہ چھڑی آپ اس کو دے دیں۔ شاہ بہلول نے وہ چھڑی بڑے شوق سے قبول کی اور چل دئیے۔ تین سال کے بعد ہارون رشید بیمار ہوا اور بستر مرگ پر پہنچ گیا۔ شاہ بہلول عیادت کے لیے تشریف لائے‘ مزاج پرسی کی ہارون رشید کو اندازہ ہوگیا تھا کہ وقت قریب ہے اس نے کہا کہ مزاج کیا پوچھتے ہو‘ سفر کی تیاری ہے۔ شاہ بہلولؒ نے سوال کیا: کہاں کا سفر درپیش ہے؟ ہارون رشید نے جواب دیا کہ آخرت کا۔ شاہ بہلولؒ نے پھر سوال کیا کہ کتنے روز کا سفر ہے؟ ہارون رشید نے جواب دیا آپ بھی دیوانے ہی رہے‘ بھلا آخرت کے سفر سے بھی کوئی جاکر واپس آتا ہے‘ شاہ بہلول نے پھر سوال کیا؟ کتنا لشکر‘ سامان اور خدمت گزار آگے روانہ کیے؟ بادشاہ نے جواب دیا آپ کیسی احمقانہ بات کرتے ہیں وہاں کے سفر میں کون لاؤ لشکر‘ سامان اور خدمت گزار بھیج سکتا ہے؟ شاہ بہلولؒ نے اپنی عباء کے اندر سے وہ چھڑی نکالی جو تین سال قبل ہارون رشید نے انہیں دی تھی اور یہ کہہ کر بادشاہ کو واپس کی کہ آپ کے حکم کی تعمیل میں تین سال سے میں کسی ایسے شخص کی تلاش کررہا تھا جو مجھ سے زیادہ احمق اور بے وقوف ہو‘ مجھے اپنے سے زیادہ آپ کے علاوہ احمق اور بے وقوف آج تک نہیں ملا۔ اس لیے کہ آپ چند دن کے سفر پر جاتے ہیں تو جانے سے پہلے کتنا سامان سفر‘ لشکر اور کتنے خدمت گزار آگے روانہ کرتے ہیں اور آخرت کا اتنا اہم اور طویل بلکہ ہمیشہ کا سفر درپیش تھا آپ نے وہاں کیلئے کچھ بھی انتظام نہیں کیا‘ لہٰذا مجھ سے زیادہ احمق اور بے وقوف آپ آج مجھ سے ملے ہیں۔ میں نے یہ چھڑی آج تک محفوظ رکھی تھی اور آپ کے حکم کی تعمیل میں یہ میں آپ کو دیتا ہوں۔ یہ کہہ کر چھڑی بادشاہ کے حوالہ کی اور چل دئیے۔ ہارون رشید بہلولؒ مجذوب کی حکیمانہ نصیحت سن کر بلک بلک کر رونے لگا اور کہا بہلول واقعی ہم ساری زندگی آپ کو دیوانہ سمجھتے رہے مگر واقعی ہارون رشید سے زیادہ کون احمق ہوگا جو اتنے اہم سفر کی تیاری سے غافل رہا۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان کی اس سے زیادہ بے وقوفی اور حماقت کیا ہوگی کہ اتنے اہم اور حقیقی سفر کی تیاری سے غافل رہے جبکہ ایک لمحہ اور ایک سانس کیلئے اس کا اطمینان نہیں کہ یہ سفر نہ جانے کس لمحے درپیش ہوجائے‘ کون بڑے سے بڑا شہنشاہ اور حکیم اس بات کی ضمانت لے سکتا ہے کہ انسان کا جو سانس اندر آگیا اس کے باہر نکلنے تک موت اس کو مہلت دے گی اور جو سانس باہر نکل گیا اس کے اندر آنے تک اس کی زندگی اس سے وفا کریگی۔ پھر اس دھوکے کی زندگی پر بھروسہ کرکے آخرت کے حقیقی گھر کو بھول جانا کیسا دیوانہ پن ہے۔

Tuesday, 10 March 2015

... وہ تو یکتا ہے مگر عالم تنہائی

0 comments
وہ تویکتا ہے مگر عالم تنہائی میں
میں نے گھبرا کے کئی نام پکارے اس کے

Saturday, 7 March 2015

Persian Poetry

0 comments


تو غنی از ہردو عالم من فقیر 
روز محشر عذر ھای من پذیر
ور حسابم را تو بینی ناگزیر
از نگاہ مصطفی پنہان بگیر
(اقبال)
--------------
اردو ترجمہ
اے اللہ ! تو دوجہانوں کو عطا کرنے والا ہے جبکہ میں فقیر ہوں
روزِ محشر میرے عذر(معذرت) کو پذیرائی بخشنا
اگر میرے نامہ اعمال کا حساب نا گزیر ہو
اسے میرے آقا محمد ﷺ کی نگاہوں سے پوشیدہ رکھنا

Pearls of Sufism

0 comments

Friday, 6 March 2015

......دل میں ہو یاد تیری گوشہ تنہائی ہو

0 comments

......دل میں ہو یاد تیری گوشہ تنہائی ہو

پھر تو خلوت میں عجب انجمن آرائی ہو


Punjabi Poetry

0 comments

Diwan e Hikmat

0 comments

اس کائنات کی ابتدا ایک لفظ سے ہوئی‘ایک مقدس لفظ‘ایک امر‘صاحبِ امر کا…’’کن‘‘کے لفظ میں ایک مکمل کائنات،ایک مکمل نظام،ایک مکمل داستان پنہاں تھی۔یہ ایک ایسا لفظ تھا کہ جس کی اطاعت میں آج تک ہر شے عمل پیرا ہے۔یہ لفظ کا عجب کرشمہ تھا کہ نہ ہونے سے ہونا ہو گیا۔عدم سے وجود کا سفر ’’کن‘‘سے شروع ہوا اور وجود سے عدم تک سفر بھی اسی لفظ کی تاثیرکاحصہ ہی ہے