شریعت ، طریقت ، حقیقت ، معرفت۔۔۔
رسول اللہﷺ کے زمانہ میں اور اس کے بعد خیر قرون میں شریعت ، طریقت ، حقیقت ، معرفت وغیرہ کوئی خاص اصطلاح نہ تھیں۔ صرف شریعت کا لفظ دین کے معنی میں استعمال ہوتا تھا باقی الفاظ قریباً اپنے لغوی معنی پر تھے۔ اس کے بعد جیسے فقہ والوں نے احکام کے درجات بتلانے کی غرض سے فرض واجب وغیرہ اصطلاحات مقرر کی ہیں۔ اسی طرح صوفیائے کرام نے تہذیب اخلاق یعنی علم تصوف میں سلوک عبد کے درجات کو ظاہر کرنے کی غرض سے یہ الفاظ مقرر کیے۔
ان چاروں مراتب کی مثال درخت کی سی ہے۔
مثلاً درخت کے لئے جڑیں اور تنا ہے ان کے بغیر درخت کا وجود ہی نہیں۔
پھر ٹہنے اورشاخیں ہیں یہ بھی درخت کےلئے لازمی ہیں۔
پھر پھل ہے پھر اس کی لذت ہے۔
ٹھیک اسی طرح تصوف ہے۔ شریعت کے بغیر تو تصوف کوئی چیز ہی نہیں۔ نہ وہاں طریقت ہے نہ حقیقت نہ معرفت کیونکہ شریعت بمنزلہ جڑ اور تنے کے ہے۔ اس کے بعد طریقت کا مرتبہ ہے جو بمنزلہ ٹہنوں اورشاخوں کے ہے۔ اس کے بغیر بھی تصوف کالعدم ہے۔ پھر حقیقت پھل کے قائم مقام ہے اورمعرفت اس کی لذت کے قائم مقام ہے۔ جیسے درخت پھل اور اس کی لذت کے بغیر کامل نہیں اس طرح بندہ بھی خدا کے نزدیک کمال کو نہیں پہنچتا جب تک اس کے اندر حقیقت اور معرفت پیدا نہ ہو جائے۔
خلاصہ یہ کہ شریعت ، طریقت ، حقیقت ، معرفت خواہ الگ الگ شاخیں ہوں یا ایک ہوں اور الگ ہونے کی حالت میں چارہوں یا کم ہوں۔ کسی صورت میں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہو سکتے۔ جو ایک دوسرے سے جدا ہونے کے قائل ہیں وہ ان کی حقیقت سے ناواقف ہیں۔ اللہ ان کو سمجھ دے اور راہ راست کی توفیق بخشے۔ آمین
بحوالہ:کتاب الایمان، سید عبد اللہ محدث روپڑیؒ
تجھ جیسے جاہل کو کیا خبر شریعت کیا ہے طریقت کیا تجھ جیسے تو ویسے بھی غیر مقلد اکثر گمراہ دیکھے ہیں اپنے غلیظ خیالات اور عقائد کی وجہ سے حدیث قدسی ہے
کنت کنزا مخفیا فاحببت ان اعرف فخلقت الخلق
میں ایک چھپا ہو خزانہ تھا مجھے محبت ہوئی محمد صلی اللہ وسلم سے میں نے چاہا کہ جانا جاوں پس میں نے مخلوق کو پیدا کیا
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں بعض لوگوں نے روایتیں گھڑ کر جر م عظیم کا ارتکاب کیا اور روایات وضع کرنے والے مختلف اقسام اور مختلف اغراض پر مبنی لوگ ہیں ان میں سے بعض نام نہاد صوفی منش لوگ بھی ہیں اور یہ روایت بھی انہیں متصوفین کا شاخسانہ ہے۔
اس بارے میں امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے فرمایا :
ليس من كلام النبي صلي الله عليه وسلم ولا يعرف له سند صحيح ولا ضعيف .
’’ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام میں سے نہیں ہے اور اس کی صحیح یا ضیعف کوئی سند معروف نہیں۔ “ [مجموع الفتاوي : 18/ 122، 376]
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے اس قول کی متابعت امام ابوعبداللہ محمد بن عبداللہ بدر الدین الزرکشی نے ’’ [التذکرہ فی الاحادیث المشتهره 136، الباب الثالث فی الزھد، الحدیث العشرون] میں اور حافظ ابن حجر عسقلانی وغیرہ نے کی ہے۔
دیکهیں ! [المقاصد الحسنة للسخاوي (838) (327)، كشف الخفاء ومزيل الالباس از اسماعيل العحلوني (2019) (132/2)، الاسرار المرفوعة فى الاخبار الموضوعة از ملا علي قاري (353)، احاديث القصاص (3)، اسني المطالب (1110)، تمييز الطيب من الخبيث (4510)، الدرر المنتشرة 330، تذكرۃ الموضوعات]
معلوم ہو ا کہ یہ روایت من گھڑت ہے اور متصوفین کی وضع کردہ معلوم ہوتی ہے۔
ملا علی قاری نے اس کے مفہوم کو صحیح قرار دینے کی کوشش کی ہے اور سورۂ ذاریات کی آ یت [56] وما خلقت الجن والانس الا ليعبدون میں ليعبدون کا معنی ليعرفون کیا ہے کہ میں نے جنوں اور انسانوں کو اس لیے پیدار کیا کہ وہ مجھے پہچان لیں اور اس تفسیر کو ابن عباس رضی اللہ عنہما کی طرف منسوب کیا ہے۔
[الاسرا المرفوعة : 269 تحت رقم 303 ]
ملا علی قاری کا قول درست نہیں ہے۔ اس قول کی نسبت جو عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی طرف کی گئی ہے اس کی پختہ سند کی حاجت ہے۔ پھر قرآن و سنت میں جو صفات باری تعالیٰ ہم پڑھتے ہیں یہ روایت اس کے معارض ہے، اللہ عزوجل مجہول خزانہ کیسے ہو سکتے ہیں : وہ عزت و جلال والا کیسے نہ پہنچانا جائے۔
ایسی روایات وضع کر کے اپنا نامۂ اعمال سیاہ کیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ایسے اجزائے خاملہ اور اقوال سخیفہ سے محفوظ فرمائے۔ آمين !